ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق لندن میں قتل
متحدہ قومی مومنٹ کےممتازرہنما ڈاکٹر عمران فاروق کو لندن میں انکی رہائش گاہ کے قریب قتل کردیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق عمران فاروق برطانوی وقت کے مطابق تقریبا ساڑھے سات بجےشام اپنے گھر کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے کے کہ وہا ں پر موجود کسی شخص نے انہیں چھریوں کے وار کر کے شدید زخمی کردیا۔ اسپتال پہنچنے پر ڈاکٹروں نے انہیں مردہ قرار دے دیا۔ ڈاکٹر عمران فاروق ایم کیو ایم کے بنیادی اور اہم رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔ نواز شریف کے دور حکومت میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن میں ایک عرصے تک روپوش ہونے کے بعد، عمران فاروق ڈرامائی طور پر لندن پہنچ گئے تھے جہاں وہ جلا وطنی کی زندگی گزاررہے تھے۔ عمران فاروق کے قتل کے سوگ میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اپنی 57 ویں سالگرہ کی تقریبات منسوخ کردی ہیں۔ وائس آف امریکہ سے فون پر رابطے پر ایم کیو ایم کے لندن دفتر نے عمران فاروق کے قتل کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ الطاف حسین کے صدارت میں ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کا ہنگامی اجلاس جاری ہے۔ ڈاکٹر عمران فاروق ایم کیو ایم میں رابطہ کمیٹی کے کنوینر کے عہدے پہ فائز ہونے والے واحد رہنما تھے۔ تاہم وہ گزشتہ دو سال سے پارٹی میں غیر فعال ہونے کے بعد سے سیاسی منظر نامے سے غائب تھے ۔ ڈاکٹر عمران کے والد فاروق احمد بھی ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر 1997 میں کراچی سے رکنِ قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔ مقتول نے سوگواران میں اہلیہ شمائلہ نذر (متحدہ قومی موومنٹ کی سابق رکنِ صوبائی اسمبلی سندھ جن سے انہوں نے 2004 میں شادی کی تھی) اور دو بچے چھوڑے ہیں ۔ دریں اثنا، جمعرات کی رات گئےوائس آف امریکہ سےبات کرتے ہوئےمتحدہ قومی تحریک کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر اورسمندر پارپاکستانیوں کےوفاقی وزیرڈاکٹر فاروق ستارنےڈاکٹرعمران فاروق کےجانبحق ہونےکو پاکستان کی تاریخ کا ایک بہت بڑا سانحہ قرار دیا ہے۔اُنھوں نے کہا کہ مرحوم ڈاکٹر عمران فاروق کے والدین اور متحدہ کی خواہش ہے کہ مرحوم کی تدفین پاکستان میں ہو۔ ڈاکٹر فاروق ستارنے اِس واقعے پرافسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہلاک کرنے والوں نےایسے دِن کا انتخاب کیا جب، اُن کے بقول، متحدہ کےارکان قائدِ تحریک کی ملک بھر میں سالگرہ منانے کا پروگرام بنا رہے تھے۔ اُنھوں نے کہا کہ ‘یہ سانحہ ایسے وقت پیش آیا جب متحدہ ایک نئے جذبے کے ساتھ نظریاتی و ذہنی انقلاب کی تیاری کر رہی ہے۔’ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ جب تک واقعے کی تحقیقات مکمل نہیں ہوتی تو کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ اُن کے بقول، صحیح صورتِ حال واضح ہو تو کوئی بات کہی جاسکتی ہے۔ رابطہ کمیٹی کے مرکزی رُکن، سلیم شہزاد نے ڈاکٹر عمران فاروق کی ملک اور ایم کیو ایم کے لیے خدمات کو سراہا اور کہا کہ مرحوم تحریک کے کنوینر، رُکن قومی اسمبلی اور وزیر رہ چکے تھے، جنھوں نے شروع سے لے کر تکالیف کاٹیں اور تحریک میں قابلِ ذکر کردار ادا کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ہمارے پاس کوئی اطلاع نہیں ہے سوائے اِس بات کے کہ اُن پر حملہ ہوا جِس میں وہ جانبحق ہوگئے۔ سلیم شہزاد نے بتایا کہ جب وہ جائے وقوعہ پر پہنچے تو پولیس نے علاقے کا محاصرہ کیا ہوا تھا اور ہلاکت سے متعلق تفصیلات کا علم اُسی وقت ہوسکے گا جب پوسٹ مارٹم اور پولیس کی تحقیقات کی رپورٹ سامنے آئے گی۔ اُنھوں نے اِن رپورٹوں کی تردید کی کہ ڈاکٹر عمران فاروق پر خود اُن کے اپنے محافظ نے حملہ کیا تھا۔
ماہِ رمضان کا تحفہ عید
دوستوں ماہِ رمضان کے مبارک مہنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے عید کا تحفہ رکھا ہے،
اس عید کی خوشی یقینا ہمارے لیے سال کی بہترین خوشی ہوتی ہے، ہر چیز کا اہتمام کیا جاتا ہے،
دوستوں رشتے داروں سے ملتے ہیں،اور ایک دوسرے کے ساتھ اپنی خوشی شئیر کرتی ہیں،
اور سب سے اہم چیز جو ہوتی ہے وہ ہے،،،،،،،،،،،،،،،،
عیدی
میں ابھی تک ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہوں جن کو کسی کو عیدی نہیں دینی ہوتی،
سب سے لینی ہی ہوتی ہے، چھوٹے بھائی تک سے۔ ۔ ۔
عید کے دن عیدی ملنا اور عیدی لینا یہ دونوں مختلف کام ہیں،
کچھ لوگ آپ کے گھر آتے ہیں یا آپ جاتے ہیں اور خاموشی سے جو عیدی مل گئی لے لی بغیر کسی چوں چراں کے
اور عیدی لینا ، یہ بڑے مزے کا کام ہوتا ہے ، عموما یہ کام بھائیوں اور ماموں خالاوں کے ساتھ ہی ہوتا ہے،
ہلکی پھلکی نوک جھنک کے بعد جب اپنے مطلب کی عیدی ہاتھ آتے ہے تو جو مزاہ آتا ہے وہ ایسا ہی ہوتا ہے کے آپ نے کوئی جنگ جیت لی،
یہ ساری باتیں ساری ہنسی مزاق اپنی جگہ
،
مگر ایک چیز میری سمجھ میں نہیں آتی،
کہ عیدی میں پیسے دینے کا ریواج کیوں ہے؟
اور کیا آپ کے خیال میں یہ بات ٹھیک ہے کے عیدی میں پیسے ہی دیے جانا چاہیے یا کوئی تحفہ دے دیا جائے،
اب آپ لوگ ان سوالوں پر اپنا پوائنٹ آف ویو بتائیں،
اور یہ بھی کے کیا پیسے دینا چاہیے یا کوئی تحفہ دے دیا جائے؟
وداع ماہ رمضان کی دعا
ے اللہ ! اے وہ جو ( اپنے احسانات کا ) بدلہ نہیں چاہتا ۔ اے وہ جو عطا وبخشش پر پشیمان نہیں ہوتا۔ اے وہ جو اپنے بندوں کو ( ان کے عمل کے مقابلہ میں ) نپا تلا اجر نہیں دیتا۔ تیری نعمتیں بغیر کسی سابقہ استحقاق کے ہیں اور تیرا عفو ودرگزر تفضل واحسان ہے تیرا سزا دینا عین عدل اور تیرا فیصلہ خیر وبہبودی کا حامل ہے تو اگر دیتا ہے تو اپنی عطا کو منت گزاری سے آلودہ نہیں کرتا اور اگر منع کر دیتا ہے تو یہ ظلم وزیادتی کی بنا پر نہیں ہوتا۔ جو تیرا شکر ادا کرتا ہے تو اس کے شکر کی جزا دیتا ہے ۔ حالانکہ تو ہی نے اس کے دل میں شکرگزاری کا القاء کیا ہے اور جو تیری حمد کرتا ہے اسے بدلہ دیتا ہے حالانکہ تو ہی نے اسے حمد کی تعلیم دی ہے اورایسے شخص کی پردہ پوشی کرتا ہے کہ اگرچاہتا تو اسے رسوا کر دیتا ہے ۔ اورایسے شخص کو دیتا ہے کہ اگر چاہتا تو اسے نہ دیتا ۔ حالانکہ وہ دونوں تیری بارگاہ عدالت میں رسوا ومحروم کیے جانے ہی کے قابل تھے مگر تو نے اپنے افعال کی بنیاد تفضل واحسان پر رکھی ہے اور اپنے اقتدار کو عفو ودرگزر کی راہ پر لگایا ہے اور جس کسی نے تیری نافرمانی کی تو نے اس سے بردباری کا رویہ اختیار کیا ۔ا ورجس کسی نے اپنے نفس پر ظلم کا ارادہ کیا تو نے اسے مہلت دی تو ان کے رجوع ہونے تک اپنے حلم کی بنا پر مہلت دیتا ہے اور توبہ کرنے تک انہیں سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا تا کہ تیری منشاء کے خلاف تباہ ہونے والا تباہ نہ ہو اور تیری نعمت کی وجہ سے بدبخت ہونے والا بد بخت نہ ہو مگر اس وقت کہ جب اس پر پوری عذر داری اور اتمام حجت ہوجائے ۔ اے کریم ! یہ ( اتمام حجت) تیرے عفو ودرگزر کا کرم اور اے بردبار تیری شفقت ومہربانی کا فیض ہے تو ہی ہے وہ جس نے اپنے بندوں کے لیے عفووبخشش کا دروازہ کھولا ہے اور اس کا نام توبہ رکھا ہے اور تو نے اس دروازہ کی نشان دہی کے لیے اپنی وحی کو رہبر قراردیا ہے تاکہ وہ اس دروازہ سے بھٹک نہ جائیں چنانچہ اے مبارک نام والے تو نے فرمایا ہے کہ خدا کی بارگاہ میں سچے دل سے توبہ کرو۔امید ہے کہ تمہارا پروردگار تمہارے گناہوں کو محو کر دے اور تمہیں اس بہشت میں داخل کرے جس کے (محلات وباغات) کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ اس دن جب خدا اپنے رسول اور ان لوگوں کو جو اس پر ایمان لائے ہیں رسوا نہیں کرے گا بلکہ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کی دائیں جانب چلتا ہو گا اور وہ لوگ یہ کہتے ہوں گے کہ اے ہمارے پروردگار!ہمارے لیے ہمارے نور کو کامل فرما اور ہمیں بخش دے ۔ اس لیے کہ تو ہر چیز پر قادر ہے تو اب جو اس گھر میں داخل ہونے سے غفلت کرے جب کہ دروازہ کھولا اور رہبر مقرر کیا جا چکا ہے تواس کا عذروبہانہ کیا ہو سکتا ہے ؟ تو وہ ہے جس نے اپنے بندوں کے لیے لین دین میں اونچے نرخوں کا ذمہ لے لیا ہے اور یہ چاہا ہے کہ وہ جو سودا تجھ سے کریں اس میں انہیں نفع ہو اور تیری طرف بڑھنے اور زیادہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوں چنانچہ تو نے کہ جو مبار ک نام والا اوربلند مقام والا ہے فرمایا ہے جو میرے پاس نیکی لے کر آئے گا اسے اس کا دس گنا اجر ملے گا اور جو برائی کا مرتکب ہو گا تو اس کو برائی کا بدلہ بس اتنا ہی ملے گا جتنی برائی ہے ۔۔۔۔ اور تیرا ارشاد ہے کہ ۔۔ جو لوگ اللہ تعالی کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس بیج کی سی ہے جس سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو سو دانے ہوں اور خدا جس کے لیے چاہتا ہے دگنا کردیتا ہے ۔۔۔ اورتیرا ارشاد ہے کہ ۔۔۔۔کو ن ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے تاکہ خدا اس کے مال کو کئی گناہ زیادہ کرکے ادا کرے اور ایسی ہی افزائش حسنات کے وعدہ پر مشتمل دوسری آیتیں کہ جو تو نے قرآن مجید میں نازل کی ہیں اور تو ہی وہ ہے جس نے وحی وغیب کے کلام اور ایسی ترغیب کے ذریعہ کہ جو ان کے فائدہ پر مشتمل ہے ایسے امور کی طرف ان کی رہنمائی کی کہ اگر ان سے پوشیدہ رکھتا تو نہ ان کی آنکھیں دیکھ سکتیں ، نہ ان کے کان سن سکتے اور نہ ان کے تصورات وہاں تک پہنچ سکتے چنانچہ تیرا ارشاد ہے کہ تم مجھے یاد رکھو میں تمہاری طرف سے غافل نہیں ہوں گا ۔ اورمیرا شکر ادا کرتے رہو اور ناشکری نہ کرو۔۔۔ اورتیرا ارشاد ہے کہ اگر میرا شکر کرو گے تو میں یقینا تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر نا شکری کی تو یاد رکھو کہ میرا عذاب سخت عذاب ہے ۔۔۔ اور تیرا ارشاد ہے کہ مجھ سے دعا مانگو تو میں قبول کروں گا ۔ وہ لوگ جو غرور کی بنا پر میری عبادت سے منہ موڑ لیتے ہیں وہ عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ چنانچہ تو نے دعا کا نام عبادت رکھا اور اس کے ترک کو غرور سے تعبیر کیا اور اس کے ترک پر جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہونے سے ڈرایا !اس لئے انہوں نے تیری نعمتوں کی وجہ سے تجھے یاد کیا۔ تیرے فضل وکرم کی بنا پر تیرا شکریہ اد اکیا اورتیرے حکم سے تجھے پکارا اور(نعمتوں میں ) طلب افزائش کے لیے تیری راہ میں صدقہ دیا اور تیری یہ رہنمائی ہی ان کے لیے تیرے غضب سے بچاؤ اور تیری خوشنودی تک رسائی کی صورت تھی اورجن باتوں کی تو نے اپنی جانب سے اپنے بندوں کی رہنمائی کی ہے اگر کوئی مخلوق اپنی طرف سے دوسرے مخلوق کی ایسی ہی چیزوں کی طرف راہنمائی کرتا تو وہ قابل تحسین ہوتا توپھر تیرے ہی لئے حمد ستائش ہے جب تک تیری حمد کے لیے راہ پیدا ہوتی رہے اور جب تک حمد کے وہ الفا ظ جن سے تیری تحمید کی جا سکے اور حمد کے وہ معنی جو تیری حمد کی طرف پلٹ سکیں باقی رہیں۔ اے وہ معنی جو تیری حمد کی طرف پلٹ سکیں باقی رہیں۔ اے وہ جو اپنے فضل واحسان سے بندوں کی حمد کا سزا وار ہوا ہے اور انہیں اپنی نعمت وبخشش دے ڈھانپ لیا ہے۔ ہم پر تیری نعمتیں کتنی آشکار ہیں اور تیرا انعام کتنا فراواں ہے
ور کس قدر ہم تیرے انعام واحسان سے مخصوص ہیں تو نے اس دین کی جسے منتخب فرمایا اور اس طریقہ کی جسے پسند فرمایا اور اس راستہ کی جسے آسان کر دیا ہمیں ہدایت کی اور اپنے ہاں قرب حاصل کرنے اور عزت وبزرگی تک پہنچنے کے لئے بصیرت دی ۔ بارالہا!تو ان منتخب فرائض اور مخصوص واجبات میں سے ماہ رمضان کو قرار دیا ہے جسے تو نے تمام مہینوں میں امتیاز بخشا اور تمام وقتوں اور زمانوں میں سے اسے منتخب فرمایا ہے اور اس میں قرآن اور نور کو نازل فرما کر اور ایمان کو فروغ وترقی بخش کر اسے سال کے تمام اوقات پر فضیلت دی اور اس میں روزے واجب کئے اور نمازوں کی ترغیب دی اور اس میں شب قدر کو بزرگی بخشی جو خود ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ پھر اس مہینہ کی وجہ سے تو نے ہمیں تمام امتوں پر ترجیح دی اور دوسر ی امتوں کے بجائے ہمیں اس کی فضلیت کے باعث منتخب کیا ۔ چنانچہ ہم نے تیرے حکم سے اس کے دنوں میں روزے رکھے اور تیری مدد سے اس کی راتیں عبادت میں بسر کیں ۔ اس حالت میں کہ ہم اس روزہ نماز کے ذریعہ تیری اس رحمت کے خواستگار تھے جس کا دامن تو نے ہمارے لئے پھیلایا ہے اور اسے تیرے اجر وثواب کا وسیلہ قراردیا ۔ اور تو ہر اس چیز کے عطا کرنے پر قادر ہے جس کی تجھ سے خواہش کی جائے اور ہر اس چیز کا بخشنے والا ہے جس کا تیرے فضل سے سوال کیا جائے تو ہر اس شخص سے قریب ہے جو تجھ سے قرب حاصل کرنا چاہے ۔ اس مہینہ نے ہمارے درمیان قابل ستائش دن گزارے اور اچھی طرح حق رفاقت ادا کیا اور دنیا جہان کے بہترین فائدوں سے ہمیں مالا مال کیا ۔ پھر جب اس کا زمانہ ختم ہو گیا، مدت بیت گئی اور گنتی تمام ہو گئی تو وہ ہم سے جدا ہوگیا۔ اب ہم اسے رخصت کرتے ہیں اس شخص کے رخصت کرنے کی طرح جس کی جدائی ہم پر شاق ہو اور جس کا جانا ہمارے لئے غم افزا اور وحشت انگیز ہو اور جس کے عہد وپیمان کی نگہداشت عزت وحرمت کا پاس اور اس کے واجب الادا حق سے سبکدوشی از بس ضروری ہو اس لیے ہم کہتے ہیں اے اللہ کے بزرگ ترین مہینے تجھ پر سلام ، اے دوستان خدا کی عید تجھ پر سلام اے اوقات میں بہترین رفیق اور دنوں اور ساعتوں میں بہترین مہینے تجھ پر سلام ہو ، اے وہ مہینے جس میں امیدیں بر آتی ہیں اور اعمال کی فراوانی ہوتی ہے تجھ پر سلام ۔ اے وہ ہم نشین کہ جو موجود ہو تو اس کی بڑی قدرومنزلت ہوتی ہے اور نہ ہونے پر بڑا دکھ ہوتا ہے اور اے وہ سر چشمہ امید ورجا جس کی جدائی الم انگیز ہے تجھ پر سلام۔ اے وہ ہمدم جو انس ودل بستگی کا سامان لیے ہوئے آیا تو شادمانی کا سبب ہوا اور واپس گیا تو وحشت بڑھا کر غمگین بنا گیا تجھ پر سلام۔ اے وہ ہمسائے جس کی ہمسائیگی میں دل نرم اور گناہ کم ہو گئے تجھ پر سلام ، اے وہ مدد گار جس نے شیطان کے مقابلہ میں مدد واعانت کی، اے وہ ساتھی جس نے حسن عمل کی راہیں ہموار کیں تجھ پر سلام ، ( اے ماہ رمضان ) تجھ میں اللہ کے آزاد کیے ہوئے بندے کس قدر زیادہ ہیں اور جنہوں نے تیری حرمت وعزت کا پاس ولحاظ رکھا وہ کتنے خوش نسیب ہیں تجھ پر سلام، تو کس قدر گناہوں کو محو کرنے والا اور قسم قسم کے عیبوں کو چھپانے والا ہے تجھ پر سلام ۔ تو گنہگاروں کے لیے کتنا طویل اور مومنوں کے دلوں میں کتنا پر ہبیت ہے تجھ پر سلام ، اے وہ مہینے جس سے دوسرے ایام ہمسری کا دعوی نہیں کر سکتے تجھ پر سلام، اے وہ مہینے جو ہر امر سے سلامتی کا باعث ہے تجھ پر سلام ، اے وہ جس کی ہم نشینی بار خاطر اور معاشرت ناگوار نہیں ۔ تجھ پر سلام جب کہ تو برکتوں کے ساتھ ہمارے پاس آیا اور گناہوں کی آلودگیوں کو دھویا تجھ پر سلام ، اے وہ جسے دل تنگی کی وجہ سے رخصت نہیں کیا گیا۔اور نہ خستگی کی وجہ سے اس کے روزے چھوڑے گئے تجھ پر سلام ۔ اے وہ کہ جس کے آنے کی پہلے سے خواہش تھی اور جس کے ختم ہونے سے قبل ہی دل رنجیدہ ہیں تجھ پر سلام، تیری وجہ سے کتنی برائیاں ہم سے دور ہو گئیں اور کتنی بھلائیوں کے سر چشمے ہمارے لیے جاری ہو گئے تجھ پر سلام ۔ اے ماہ رمضان تجھ پر اور اس شب قدر پر جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے سلام ہو۔ ابھی کل ہم کتنے تجھ پر وا رفتہ تھے اور آنے والے کل میں ہمارے شوق کی کتنی فراوانی ہو گئی تجھ پر سلام ۔ اے ماہ مبارک تجھ پر اور تیری ان فضیلتوں پر جن سے ہم محروم ہو گئے اور تیری گزشتہ برکتوں پر جو ہمارے ہاتھ سے جاتی رہیں سلام ہو ۔اے اللہ ہم اس مہینے سے مخصوص ہیں جس کی وجہ سے تو نے ہمیں شرف بخشا اور اپنے لطف واحسان سے اس کی حق شناسی کی توفیق دی جبکہ بد نصیب لوگ اس کے وقت ( کی قدر وقیمت)سے بے خبر تھے اوراپنی بد بختی کی وجہ سے اس کے فضل سے محروم رہ گئے اور تو ہی ولی وصاحب اختیار ہے کہ ہمیں اس کی حق شناسی کے لیے منتخب کیا اوراس کے احکام کی ہدایت فرمائی ۔ بے شک تیری توفیق سے ہم نے احکام کی ہدایت فرمائی۔ بے شک تیری توفیق سے ہم نے اس مہینے میں روزے رکھے، عبادت کے لیے قیام کیا ۔ مگر کمی وکوتاہی کے ساتھ اور مشتے ازخروار سے زیادہ نہ بجا لاسکے۔ اے اللہ ! ہم اپنی بد اعمالی کا اقرار اورسہل انگاری کا اعتراف کرتے ہوئے تیری حمد کرتے ہیں اوراب تیرے لیے کچھ ہے تو وہ ہمارے دلوں کی واقعی شرمساری اور ہماری زبانوں کی سچی معذرت ہے لہذا اس کمی و کوتاہی کے باوجود جو ہم سے ہوئی ہے ہمیں ایسا اجر عطا کر کہ ہم اس کے ذریعہ دلخواہ فضیلت وسعادت کو پا سکیں اور طرح طرح کے اجر وثواب کے ذخیرے جن کے ہم آرزو مند تھے اس کے عوض حاصل کر سکیں اور ہم نے تیرے حق میں جو کمی کوتاہی کی ہے اس میں ہمارے عذر کو قبول فرما اور ہماری عمر آئندہ کا رشتہ آنے والے ماہ رمضان سے جوڑ دے اور جب اس تک پہنچا دے تو جو عبادت تیرے شایان شان ہو اس کے بجا لانے پر ہماری اعانت فرمانا اوراس اطاعت پر ج
س کا وہ مہینہ سزاوار ہے عمل پیرا ہونے کی توفیق دینا اور ہمارے لئے ایسے نیک اعمال کا سلسلہ جاری رکھنا کہ جو زمانہ زیست کے مہینوں میں ایک کے بعد دوسرے ماہ ماہ رمضان میں تیری حق ادائیگی کا باعث ہوں ۔ ا ے اللہ ! ہم نے اس مہینہ میں جو صغیرہ یا کبیرہ معصیت کی ہو ، یا کسی گناہ سے آلودہ اورکسی خطا کے مرتکب ہوئے ہوں جان بوجھ کر یا بھولے چوکے، خود اپنے نفس پر ظلم کیا ہو یا دوسرے کا دامن حرمت چاک کیا ہو ۔ تو محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور ہمیں اپنے پردہ میں ڈھانپ لے اور اپنے عفو ودرگزر سے کام لیتے ہوئے معاف کر دے ، اور ایسا نہ ہو کہ اس گناہ کی وجہ سے طنز کرنے والوں کی آنکھیں ہمیں گھوریں اور طعنہ زنی کرنے والوں کی زبانیں ہم پر کھلیں اور اپنی شفقت بے پایاں سے اور مرحمت روز افزوں سے ہمیں ان اعمال پر کار بند کر کہ جو ان چیزوں کو بر طرف کریں اور ان کی تلافی کریں جنہیں تو اس ماہ میں ہمارے لئے نا پسند کرتا ہے۔ اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اوراس مہینہ کے رخصت ہونے سے جو قلق ہمیں ہوا ہے اس کا چارہ کر اور عید اور روزہ چھوڑنے کے دن کو ہمارے لیے مبارک قرار دے اور اسے ہمارے گزرے ہوئے دنوں میں بہترین دن قرار دے جو عفو ودرگزر کو سمیٹنے والا اور گناہوں کو محو کرنے والا ہو اور تو ہمارے ظاہر وپوشیدہ گناہوں کو بخش دے۔ بارالہا اس مہینہ سے الگ ہونے کے ساتھ تو ہمیں گناہوں سے الگ کر دے اور اس کے نکلنے کے ساتھ تو ہمیں برائیوں سے نکال لے اوراس مہینہ کی بدولت اس کو آباد کرنے والوں میں ہمیں سب سے بڑھ کر خوش بخت با نصیب اور بہرہ مند قرار دے ۔ اے اللہ ! جس کسی نے جیسا چاہیے اس مہینے کا پاس ولحاظ کیا ہو اور کماحقہ اس کا احترام ملحوظ رکھا ہو اوراس کے احکام پر پوری طرح عمل پیرا رہا ہو ۔ گناہوں سے جس طرح بچنا چاہیے اس طرح بچا ہو بہ نیت تقرب ایسا عمل خیر بجا لایا ہو جس نے تیری خوشنودی اس کے لیے ضروری قرار دی ہو اور تیری رحمت کو اس کی طرف متوجہ کردیا ہو ۔ تو جو اسے بخشے ویسا ہی ہمیں بھی اپنی دولت بے پایاں میں سے بخش اور اپنے فضل وکرم سے اس سے بھی کئی گنا زائد عطا کر ۔ اس لیے کہ تیرے خزانے کم ہونے میں نہیں آتے بلکہ بڑھتے ہی جاتے ہیں اور نہ تیرے احسانات کی کانیں فنا ہوتی ہیں اور تیری بخشش وعطا تو ہر لحاظ سے خوشگوار بخشش وعطا ہے۔ اے اللہ !محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور جو لوگ روز قیامت تک اس ماہ کے روزے رکھیں یا تیری عبادت کریں ان کے اجر وثواب کے مانند ہمارے لیے اجر وثواب ثبت فرما۔ اے اللہ ! ہم اس روز فطر میں جسے تو نے اہل ایمان کے لیے عید ومسرت کا روز اور اہل اسلام کے لیے اجتماع وتعاون کا دن قرار دیا ہے ہر اس گناہ سے جس کے ہم مرتکب ہوئے ہوں اوراس برائی سے جسے پہلے کر چکے ہوں اورہر بری نیت سے جسے دل میں لیے ہوئے ہوں اس شخص کی طرح توبہ کرتے ہیں جو گناہوں کی طرف دوبارہ پلٹنے کا ارادہ نہ رکھتا ہواور نہ توبہ کے بعد خطا کا مرتکب ہوتا ہو ایسی سچی توبہ تو ہر شک وشبہ سے پاک ہو تو اب ہماری توبہ کو قبول فرما ہم سے راضی وخوشنود ہو جا اورہمیں اس پر ثابت قدم رکھ۔ اے اللہ ! گناہوں کی سزا کا خوف اور جس ثواب کا تو نے وعدہ کیا ہے اس کا شوق ہمیں نصیب فرما تا کہ جس ثواب کے تجھ سے خواہش مند ہیں اس کی لذت اورجس عذاب سے پناہ مانگ رہے ہیں اس کی تکلیف واذیت پوری طرح جان سکیں ۔ اورہمیں اپنے نزدیک ان توبہ گزاروں میں قرار دے جن کے لیے تو نے اپنی محبت کو لازم کر دیا ہے اورجن سے فرمانبرداری واطاعت کی طرف رجوع ہونے کو تو نے قبول فرمایا ہے۔ اے عدل کرنے والوں میں سب سے زیادہ عدل کرنے والے ۔ اے اللہ ! ہمارے ماں باپ اورہمارے تمام اہل مذہب وملت خواہ وہ گزر چکے ہوں یا قیامت کے دن تک آیندہ آنے والے ہوں سب سے درگزر فرما ۔اے اللہ ! ہمارے نبی محمد اور ان کی آل پر ایسی رحمت نازل فرما جیسی رحمت تو نے اپنے مقرب فرشتوں پر کی ہے اور ان پر اور ان کی آل پر ایسی رحمت نازل فرما جیسی تو نے اپنے فرستادہ نبیوں پر نازل فرمائی ہے اور ان پر او ر ان کی آل پر ایسی رحمت نازل فرما جیسی تو نے اپنے نیکو کار بندوں پر نازل کی ہے ( بلکہ ) اس سے بہتر وبرتر ، اے تمام جہان کے پروردگار ایسی رحمت جس کی برکت ہم تک پہنچے جس کی منفعت ہمیں حاصل ہو اور جس کی وجہ سے ہماری دعائیں قبول ہوں اس لیے کہ تو ان لوگوں سے جن کی طرف رجوع ہوا جاتا ہے زیادہ کریم اور ان لوگوں سے جن پر بھروسا کیا جاتا ہے زیادہ بے نیاز کرنے والا ہے اور ان لوگوں سے جن کے فضل کی بنا پر سوال کیا جاتا ہے زیادہ عطا کرنے والا ہے اور تو ہر چیز پر قادر وتوانا ہے۔
Recent Comments